14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 8
منزل عشق قسط 8
وجدان کو صبح ہوتے ہی خبر ہو چکی تھی کہ ہانیہ گھر چھوڑ کر جا چکی تھی اور تب سے وجدان اسے ڈھونڈ رہا تھا۔
لیکن ہانیہ کا کچھ پتہ نہیں چلا اگلی رات کے دس بجے اپنے موبائل پر انس کا فون آتا دیکھ وجدان حیران ہوا تھا۔
"ہیلو وجدان سر۔۔۔۔انس بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ہانیہ اس وقت میرے پاس ہے۔۔۔"
انس کی بات پر وجدان نے سکون کا سانس لیا۔
"انس فوراً گھر واپس لاؤ اسے وہ پاگل سمجھ ہی نہیں رہی جہاں وانیا جا چکی ہے وہاں سے اسے لانا بہت مشکل ہے اور ایک بیٹی کو ڈھونڈتے ہوئے میں دوسری کو نہیں کھو سکتا۔۔۔"
خود پر بہت ضبط کرنے کے باوجود وجدان کی آواز نم ہو چکی تھی۔
"آپ فکر مت کریں سر ہانیہ میرے ساتھ بلکل محفوظ ہے جب تک میں اسکے ساتھ ہوں کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا۔"
انس نے یقین دلایا۔
"جانتا ہوں بیٹا پورا بھروسہ ہے مجھے تم پر لیکن مجھے ہانیہ پر بھروسہ نہیں تم اسے گھر لے آؤ پھر میں اسے کبھی باہر بھی نہیں نکلنے دوں گا۔"
وجدان نے آخری بات سختی سے کہی۔
"اوکے سر۔۔۔"
انس نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا اور تھوڑی دیر کے بات ہانیہ کپڑے بدل کر کمرے سے باہر آئی۔اس پر نظر پڑتے ہی انس اپنی نظریں چرانے لگا۔
"تمہاری کافی۔۔۔۔"
انس نے کافی کا کپ اسے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ہانیہ نے خاموشی سے وہ کپ اپنے ہاتھ میں تھاما اور سر جھکا کر بیٹھی رہی۔انس کی نظر ہانیہ کی دائیں کلائی میں موجود نیلے رنگ کے دھاگے پر پڑی۔
"یہ دھاگا میرے ہاتھ میں وانیا نے باندھا تھا اور میں نے اسکے ہاتھ میں پنک کلر کا دھاگا باندھا۔۔۔"
ہانیہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔
"کیونکہ وہ مجھے بہن نہیں اپنا محافظ سمجھتی تھی۔۔۔۔"
ہانیہ نے بہت بے دردی سے اپنے آنسو صاف کیے اور انس بے بسی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"دنیا کے لئے ہم صرف بہنیں ہیں لیکن ہم ایک دوسری کی جان ہیں۔۔۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤں گی مر جاؤں گی میں۔۔۔۔"
ہانیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو انس نے بہت بے بسی سے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ہانیہ نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بہت امید سے اسکی جانب دیکھا۔
"آپ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے ناں انس۔۔۔۔۔اگر آپ نے مدد نہیں بھی کی تو بھی میں اکیلے ہی اسے ڈھونڈ کر رہوں گی پھر چاہے ایسا کرتے کرتے خود ہی اسکے ساتھ قید کیوں نہ ہو جاؤں۔۔۔"
انس اس کی آنکھوں میں پختہ عزم دیکھ سکتا تھا۔وجدان کچھ بھی کر لیتا وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔
"تم جانتی بھی ہو کتنا بڑا خطرہ ہے یہ کیا کیا ہو سکتا ہے تمہارے ساتھ؟"
انس نے اسے ڈرانے کی کوشش کی لیکن ہانیہ کہ چہرے پر بس ایک مسکراہٹ آئی تھی۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا مر جاؤں گی۔۔۔۔مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا آج یا کل تو مرنا ہی ہے۔۔۔"
انس نے گہرا سانس لیا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس لڑکی کو کیسے سمجھائے۔
"کم از کم اپنی ماں کا ہی سوچ لو ہانیہ ایک بیٹی تو پہلے ہی انکے پاس نہیں اگر دوسری کو بھی نہ پائیں گی تو کیا بنے گا انکا؟"
انس کی بات پر ہانیہ نے سر جھکا لیا۔
"آپ میرا ساتھ دیں گے یا نہیں؟"
ہانیہ نے ہٹ دھرمی سے اسکے سوال کا جواب اپنے ہی سوال سے کیا۔انس بہت دیر اس بے وقوف بہادر سی لڑکی کو دیکھتا رہا۔اگر وہ اسے وجدان کے پاس بھیج بھی دیتا تو بھی وہ کسی نہ کسی طرح پھر سے بھاگ جاتی اور پھر اکیلے ہی اپنی جان خطرے میں ڈالے گی۔انس ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔
"ٹھیک ہے ہانیہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ اپنے آنسو پونچھ کر مسکرا دی۔
"تو ہم اسے کیسے ڈھونڈیں گے؟"
ہانیہ نے بے چینی سے پوچھا تو انس گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
"شاید ایک شخص کو جانتا ہوں میں جو ہمیں راگا تک تو نہیں البتہ اسکے کسی آدمی تک یا ایسے شخص تک ضرور پہنچا دے گا جو راگا کو جانتا ہو۔۔۔۔اس لیے ہمیں اسی کے پاس جانا چاہیے۔۔۔"
ہانیہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔
"کہاں ملے گا وہ ہمیں؟"
"حیدر آباد۔۔۔"
❤️❤️❤️
معراج آج پھر دوبارہ سے کالج آیا تھا۔شایان جو کہ اس حادثے کی خبر ملتے ہی واپس لاہور آ گیا تھا اس نے معراج کو روکنے کی کافی کوشش کی تھی لیکن معراج کا یہی کہنا تھا کہ وہ اب ٹھیک ہے بس بازو پر چھوٹا سا زخم ہے ٹھیک ہو جائے گا۔
ابھی وہ کلاس کی جانب ہی جا رہا تھا جب اسے پرنسپل کا بلاوہ آیا۔
"مم۔۔۔۔مے آئی کم ان سر۔۔۔؟"
پرنسپل کے ہاں میں سر ہلاتے ہی معراج کمرے میں داخل ہوا اور پرنسپل کے ساتھ خادم کے پی اے عرفان کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
"یہ خادم شفیق صاحب کے پی اے ہیں عرفان صاحب۔یہ آپ کو خادم صاحب کے کہنے پر ان کے گھر لے جانے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔"
پرنسپل کی بات پر معراج حیران ہوا۔
"لل۔۔۔۔لیکن سر وہ مجھ سس۔۔۔۔سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟"
"اس کا تو آپ کو وہاں جا کر ہی پتہ چلے گا معراج اور فکر مت کریں میں آپ کے گھر انفارم کر دوں گا۔"
کچھ سوچ کر معراج نے اثبات میں سر ہلایا اور اور پی اے عرفان صاحب کی جانب دیکھا۔
"چچ۔۔۔۔چلیں۔۔۔"
تقریبا بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اسے خادم شفیق کے محل نما گھر میں لے گئے جو بہت بڑا ہر عالیشان تھا۔عرفان نے اسے ایک لاونج میں بیٹھایا اور خادم کو بتانے چلا گیا۔معراج بس حیرت سے آنکھیں کھولے اس بنگلے کو دیکھ رہا تھا جب خادم مہنگی شلوار قمیض پہنے وہاں داخل ہوا اور مسکرا کر معراج کو اپنے گلے لگایا۔
"کیسے ہو برخوردار اب بازو کیسا ہے تمہارا؟"
خادم نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"اااا۔۔۔اب ٹھیک ہے سر۔۔۔"
معراج گھبراہٹ کے مارے اپنے ہاتھ مسلتا یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔
"اچھی بات ہے سچ کہو تو مجھے بہت فکر تھی تمہاری۔"
معراج ہلکا سا مسکرا دیا۔
"کک۔۔۔کیا آپ کو ککک۔۔۔کوئی کام تھا مم۔۔۔مجھ سے سر؟"
معراج نے کب سے دل میں آتی بات پوچھ لی۔پہلے تو خادم کچھ دیر خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا۔
"دراصل تم سے ایک کام تھا مجھے بیٹا۔میں نے دیکھا ہے کہ تم بہت اچھے اور شریف بچے ہو اس لیے تم ہی میرے کام آ سکتے ہو۔"
خادم نے گہرا سانس لیا اور پھر اپنی بات شروع کی۔
"میری ایک بیٹی ہے معراج وہ۔۔۔۔وہ بہت معصوم اور چھوٹی ہے بیمار ہونے کی وجہ سے لوگوں سے گھلتی ملتی نہیں اور بلکل تنہا گھر میں رہتی ہے۔میں چاہتا ہوں تمہاری صورت میں اسے ایک اچھا دوست مل جائے تو شائید وہ تنہائی سے دور ہو کر تھوڑی ٹھیک ہو جائے۔"
معراج حیرت سے خادم کی بات سن رہا تھا۔
"لل۔۔۔لیکن وہ مجھ سے دوستی کک۔۔۔۔کیوں کرے گی کوئی بھی مم۔۔۔ مجھ سے دوستی کیوں کرے گا۔۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم ہلکا سا مسکرا دیا۔
"وہ باقی دنیا جیسی نہیں ہے معراج بتایا نا کہ بہت معصوم ہے وہ تمہاری کمزوری کو نہیں دیکھے گی بلکہ تمہاری اچھائی کو دیکھے گی۔"
معراج نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا۔
"ٹٹٹٹ۔۔۔۔ٹھیک ہے سر جیسا آآآ۔۔۔۔آپ چاہیں۔۔۔۔"
خادم مسکرایا اور پاس کھڑی ملازمہ کو اشارہ کیا جو تھوڑی دیر بعد ہی گلابی ٹروزار شرٹ میں ملبوس ایک سولہ سالہ پیاری سی لڑکی کو وہاں لے کر آئی۔وہ لڑکی پر خوف نگاہوں سے خادم اور معراج کو دیکھ رہی تھی۔
"یہاں آؤ بیٹا۔۔۔۔"
خادم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر قریب کیا تو وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی ایسا لگ رہا تھا کہ اسکی سانسیں ابھی رک جائیں گی۔
"یہ میری پیاری سی بیٹی ہے ایمان اور بیٹا یہ معراج ہے آپ کا نیا دوست۔۔۔۔"
خادم کی بات پر ایمان سہم کر معراج کو دیکھنے لگی۔
"آپ کہتی تھی نا کہ آپکا کوئی دوست نہیں اب معراج آپ کا دوست ہو گا اور آپ اس کے ساتھ جتنی چاہے باتیں کرنا۔"
خادم نے مسکرا کر ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا جو کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کہ علاؤہ کہیں بھی ہونا چاہتی تھی۔
"ہہ۔۔۔۔ہائے۔۔۔"
معراج نے اپنا ہاتھ آگے کیا جسے ایمان نے مردہ آنکھوں سے صرف گھورا تھا تھاما نہیں تھا۔
"ایمان معراج ہائے بول رہا ہے ہاتھ ملاؤ اس سے۔۔۔"
خادم کی آواز سنتے ہی ایمان نے فوراً معراج سے ہاتھ ملایا اور سہم کر اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
"گڈ گرل۔۔۔۔اب تم دونوں یہاں بیٹھ کر باتیں کرو میں اپنا کام دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔رضیہ آپ بچوں کی خاطر کریں زرا۔۔۔۔"
خادم ملازمہ کو حکم دیتا وہاں سے چلا گیا لیکن نہ جانے کتنی دیر ایمان معراج کا ہاتھ تھامے وہیں کھڑی رہی تھی۔
"بب۔۔۔بیٹھو ناں۔۔۔"
معراج نے اپنا ہاتھ چھڑوا کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تو ایمان اسکے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھ مسلنے لگی۔
"تتت۔۔۔۔تم کچھ بولتی نہیں کیا؟"
معراج نے طویل خاموشی کے بعد سوال کیا لیکن ایمان میں اسے کوئی جواب نہیں دیا۔
"کیا تم ممم۔۔۔میری دوست بنو گی؟"
معراج نے دوسرا سوال کیا لیکن ایمان ابھی بھی بس خاموش بت بنے بیٹھی تھی۔
"ارے واہ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔۔"
خادم کے پی اے عرفان کی آواز پر جہاں معراج نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا وہیں ایمان خوف سے کانپنے لگی تھی۔وہ یوں کھینچ کھینچ کر سانس لے رہی تھی جیسے کہ سانس اسکے سینے میں ہی اٹک جائے گا۔
"مجھے شامل نہیں کرو گی اپنی باتوں میں ایمان؟"
عرفان نے پاس موجود صوفے پر بیٹھ کر پوچھا تو ایمان خوف سے اچھل کر معراج کے ساتھ ہوئی تھی۔
"بس معراج صاحب ایسی ہی ہے ہماری یہ رپنزل۔۔۔۔ محل کی وہ شہزادی جو خوبصورت پرندے کی مانند قید میں ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔۔ہے نا ایمان؟"
عرفان نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ ایمان کے سفید ہاتھ پر رکھا تو وہ خوف سے چیخ مار کر وہاں سے اٹھی اور بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
"ہاہاہاہا ڈرپوک رپنزل۔۔۔"
عرفان نے ہنستے ہوئے کہا اور معراج کو دیکھا جو حیرت سے ہر چیز دیکھ رہا تھا۔
"کک ۔۔۔ کیا ہوا انہیں؟"
"ارے کچھ نہیں معراج صاحب وہ ایسی ہی ہیں اب تو آپ ان کے دوست بن گئے ہیں نا آہستہ آہستہ سمجھ جائیں گے۔۔۔"
عرفان نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور معراج کو شش و پنج میں مبتلا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔وہاں ہوا ہر واقع معراج کو خود سے ہزار سوال پوچھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
"یہ شارٹ سرکٹ کہاں چلا گیا؟"
جنت جو کالج ختم ہونے کے بعد سے معراج کا انتظار کر رہی تھی حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔معراج ایسے کبھی کہیں نہیں گیا تھا اور اسی لیے اب وہ پریشان ہو چکی تھی۔اس نے شایان کو کال کرنے کے لیے اپنا موبائل نکالا جب پیون اسکے پاس آیا۔
"میم آپ کو لینے آئے ہیں۔"
جنت نے سوچا کہ معراج ہی ہو گا اس لیے جلدی سے بیگ سنبھالتی باہر نکل گئی لیکن سامنے کالے رنگ کی بڑی سی کال کے ساتھ پینٹ کوٹ میں ملبوس کالی عینک لگا کر شان سے کھڑے سالار ملک کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں سر؟"
سالار نے مسکرا کر عینک اتاری اور اپنی گہری نگاہوں سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔
"تم مجھے سالار بلایا کرو اب دوست ہیں ہم تو سر کہنا عجیب لگتا ہے۔"
سالار نے حکم دیتے ہوئے کہا اور اسکے ہاتھ سے بیگ پکڑ کر پاس کھڑے جمال کو پکڑا دیا۔
"کس نے کہا کہ ہم دوست ہیں دیکھیں سر جی اس دن بس مجبوری میں اس دوستی کو ہاں کہی تھی اب رات گئی بات گئی کریں آپ اور بھول جائیں۔۔۔۔"
جنت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے ہدایت کی۔
"یعنی تم میری دوست نہیں بننا چاہتی۔"
جنت نے فوراً انکار میں سر ہلایا۔
"میں صرف معراج کی دوست ہوں اور ہم بچپن سے بیسٹ فرینڈز ہیں اور کسی کی دوست نہیں بنوں گی میں۔۔۔"
جنت فخر سے کہنے لگی جبکہ سالار کی بھینچی ہوئی مٹھیوں کو اس نے نہیں دیکھا تھا۔
"نہیں جنت شایان شاہ تمہاری زندگی میں مجھ سے اونچا مقام کسی اور کا ہو یہ مجھے گوارا نہیں۔۔۔"
اچانک ہی سالار آگے بڑھا اور جنت کو اپنی گہری نگاہوں سے گھورا تھا۔
"آدھا گھنٹہ۔۔۔۔اپنی زندگی کا بس آدھا گھنٹہ دے دو مجھے پھر فیصلہ کرنا کہ تمہیں میری دوست بننا ہے یا نہیں؟"
سالار کے چیلنج پر جنت سوچ میں پڑھ چکی تھی اب بھلا ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ جنت شاہ کوئی چیلنج ٹھکرا دیتی۔
"ڈن صرف آدھا گھنٹہ اور اگر پھر بھی میں نے آپ کو اپنا دوست نہیں مانا تو جان چھوڑ دیں گے میری؟"
"وعدہ۔۔۔"
سالار کے بھرپور کانفیڈنٹ سے کہنے پر جنت کی سنہری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"اوکے سر ٹائم شروع ہو چکا ہے آپکا۔"
جنت نے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی جانب اشارہ کیا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
"مجھے سے زیادہ کسی اور کو اہمیت دی آج میری جنت نے اسکی سزا شایان شاہ ضرور ملے گی تمہیں۔۔۔"
سالار نے ہاتھ کا مکا بنا کر زور سے گاڑی میں مارا پھر اپنے غصے پر قابو کرتا گاڑی میں بیٹھ گیا اپنی جنت کا دل جیتنے کے لیے اس کے پاس بس آدھا گھنٹہ تھا۔
❤️❤️❤️❤️
وانیا روز کی طرح سر جھکائے فرش پر پڑے گدے پر سر جھکائے بیٹھی تھی جب دروازہ کھلا اور مرجان کھانے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑ کر کمرے میں داخل ہوئی۔
مرجان کو دیکھ کر وانیا نے شکر ادا کیا۔اسے تین عورتیں ہی کھانا،کپڑے اور باقی کی ضروری چیزیں دینے آتی تھیں۔
مرجان جو ویرہ کی بیوی تھی اور اس کے علاوہ صرف مرجان کی چودہ سالہ بہن گل اور ماں کو یہاں آنے کی اجازت تھی۔ان تینوں میں صرف مرجان ہی تھی جو اردو بول سکتی تھی۔
وانیا کو پشتو آتی تھی لیکن صرف سمجھنے کی حد تک اس لیے وہ بات صرف مرجان سے ہی کر سکتی تھی۔
"اب کیسا ہے تم پیارا لڑکی۔۔۔؟"
مرجان نے اسکا چہرہ اوپر کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھا تو وانیا کی پلکیں بھیگ گئیں۔
"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان مجھے جانا ہے یہاں سے اپنے گھر جانا ہے۔۔۔"
مرجان نے بے چارگی سے وانیا کو روتے ہوئے دیکھا۔
"تم میری مدد کرو مرجان پلیز مجھے یہاں سے نکال دو میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔"
وانیا نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر منت کرتے ہوئے کہا۔
"فکر مت کرو آج میں تمہارا آذادی کا ہی سوچ کر آیا تھا ایک شخص ہماری مدد کرے گا وانیا تم کو یہاں سے بھگانے میں لیکن۔۔۔۔"
مرجان کی بات پر وانیا کی آنکھیں خوشگوار حیرت سے پھیل چکی تھیں۔
"لیکن کیا؟"
"لیکن اگر میرے شوہر کو پتہ لگ گیا تو جان لے لے گا میرا تم جانتا نہیں اسے وانیا مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے؟"
وانیا نے فوراً اپنے ہاتھ مرجان کے ہاتھوں پر رکھے۔اس کا ڈرنا جائز تھا وہ کوئی بہت بڑی تو نہیں تھی بس سترہ سال کی تھی۔
"مم۔۔۔میں سارا الزام خود پر لے لوں گی مرجان وعدہ کرتی ہوں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گی بس تم یہاں سے نکلنے میں میری مدد کر دو۔۔۔"
اتنا کہہ کر وانیا پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"لیکن اگر ویرہ کو پتہ چل گیا نا وانیا کہ میں نے تمہارا مدد کیا تو وہ۔۔۔۔مجھے ان سے ڈر لگتا ہے وانیا وہ پہلے ہی مجھ سے کبھی پیار سے بات نہیں کرتا۔۔۔"
مرجان نے افسوس سے کہا تو وانیا نے بے چارگی سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جو غضب کا حسن رکھتی تھی۔
"پتہ ہے اسے میرا بابا اپنے ساتھ گھر لایا تھا کوئی نہیں تھا اسکا دنیا میں اور وہ مجھے بچپن سے اچھا لگتا تھا۔ اسکا خاموش رہنا ،صرف کام کی بات کرنا،کبھی عورت کو نگاہ اٹھا کر نہ دیکھنا یہ سب مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔جب مجھے پتہ چلا کہ میرا شادی ویرہ سے ہو رہا ہے تو میں تو ساتویں آسمان پر پہنچ گئی لیکن۔۔۔"
مرجان نے اتنا کہہ کر اپنا سر جھکایا تو وانیہ نے اسکے ہاتھ تھام لیے۔
"لیکن۔۔۔؟"
"لیکن وہ مجھ سے کبھی پیار سے بات ہی نہیں کرتا وانیا اگر کرتا بھی ہے تو ایسے جیسے میں اسکا بیوی نہیں کوئی غلام ہوں جو اسکا ہر بات مانے۔۔۔۔"
یہ سن کر مرجان کے ساتھ ساتھ وانیا کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اس نے بہت بے بسی سے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔پھر مرجان نے اپنے آنسو پونچھے اور وانیا کے دنوں ہاتھ تھام لیے۔
"سنو وانیا آج راگا لالہ اور ویرہ یہاں کام سے جا رہا ہے اور یہ موقع ہم کو نہیں چھوڑنا تم رات بارہ بجے تیار رہنا میں تمہیں لینے آؤں گی پھر پہاڑوں کی حدود سے نکلتے ہی ایک آدمی تمہارا انتظار کر رہا ہو گا جو تمہیں فوج کے پاس لے جائے گا ۔۔۔"
"لیکن میری مدد اس قبیلے میں سے کون کر رہا ہے اور کیوں؟"
وانیا نے ذہن میں اٹھتا سوال داغا لیکن تبھی باہر سے آنے والی آوازوں پر دونوں لڑکیاں گھبرائیں اور مرجان جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"آج رات بارہ بجے۔۔۔۔"
مرجان نے آہستہ سے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔ اس کے جاتے ہی راگا کمرے میں داخل ہوا اور ہمیشہ کی طرح ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ وانیہ کو دیکھنے لگا۔
"صبح بخیر ماڑا تم شہری لوگوں کی زبان میں کہیں تو گڈ مارننگ۔"
اتنا کہہ کر راگا وانیا کے سامنے بیٹھ گیا تو وہ جلدی سے سہم کر پیچھے ہوئی۔
"ارے ڈر کیوں رہی ہے راگا کی افغان جلیبی میں صرف کھانا کھاؤں گا تمہیں کھانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔۔۔"
راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور پہلا نوالہ توڑ کر وانیا کی جانب سے کیا جس نے ابھی تک کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
"مم۔۔۔مجھے۔۔۔۔"
"رکو مجھے پتا ہے کہ تم نے کیا کہنا ہے ۔۔۔"
وانیہ نے نے کچھ کہنا چاہا تو راگا اس کی بات کاٹ کر بولا۔
"مم۔۔۔مجھے کھانا نہیں کھانا مجھے جانے دو۔۔۔تم بہت برے ہو۔۔۔مجھے گھر جانا ہے۔۔۔ ماڑا روز ہی ایک بات بول بول کر تھکتا نہیں تم اب تو تمہارے ترلے رٹ گئے ہیں مجھے۔"
راگا کی بات پر وانیا نے منہ پھلا کر اسے دیکھا جبکہ راگا مسکراتے ہوئے نوالے بنا کر اسکے منہ میں ڈالنے لگا۔
"کھانا کھاؤ شرافت سے ورنہ ایسے دیکھنے پر میں تمہیں سچ مچ کا افغان جلیبی سمجھ کر کھا جائے گا۔۔۔"
راگا کی بات پر وانیہ کا خوف لوٹ کر واپس آیا اور پھر سے سہم گئی تھی۔
" آپ سچ میں بہت برے ہیں اس دنیا کے سب سے بے شرم انسان جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔"
وانیا نے روتے ہوئے کہا تو اچانک راگا اسکے قریب ہوا اور کان میں جان لیوا سرگوشی کی۔
"میری برائی تو تم نے دیکھی ہی کہاں ہے لخت جگر اگر مجھے تم پر حق حاصل ہو گیا نا تو میری برائیوں اور بے شرموں سے پناہ مانگو گی تو بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔"
راگا کی سانسوں کی تپش اپنے کان پر محسوس کر وانیا کانپ کر رہ گئی۔
"چلتا ہوں خیال رکھنا اپنا اور کوئی بیوقوفی مت کرنا ورنہ تمہارا انجام تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔"
راگا اسے خطرناک نگاہوں سے گھور کر وارننگ دیتا کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ وانیا بس اپنی دھڑکنیں شمار کرتی رہ گئی۔وہ پھر سے مرجان کی بات پر غور کرنے لگی۔
آخر ایسا کون تھا جو وانیا کی مدد کرنے کے لیے مرجان کا ساتھ دے رہا تھا؟ خیر وہ فرشتہ جو کوئی بھی تھا وانیا کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ آج یہاں سے آزاد ہو جائے گی۔
ہاں کچھ بھی ہو جائے وہ راگا اور اسکی وحشت سے بہت دور بھاگ جائے گی۔وانیا خود سے عہد کر چکی تھی۔